مولانا اسرار الحق قاسمی
گزشتہ سال الیکشن کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی نے اقتدار حاصل ہونے کی صورت میں’’ایک بھارت، بہترین بھارت‘‘اور ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ جیسے خوبصورت اور خوش کن نعروں پر عمل در آمد کو اپنا پہلا ہدف اور ملک و قوم کے تئیں اپنا اولین فرض قرار دیا تھا۔کسی بھی ملک اور قوم کو اس کے علاوہ اورکیا چاہئے ؟ ان نعروں میں وہ سب کچھ موجود تھا جس کی آرزو اور ضرورت ملک کے ہر شخص کو ہوتی ہے۔ تاہم اس ملک کے کروڑوںامن پسند اور سیکولر آئین میں یقین رکھنے والے برادران وطن کے ساتھ ساتھ مسلمان ،جو اس ملک کی کل آبادی کا پانچواں حصہ ہیں ،بی جے پی کو آر ایس ایس کے ہندوتوا وادی اور مسلم مخالف نظریات پر عمل در آمد کرنے کامحض ایک آلۂ کارسمجھتے ہیں، ان نعروںکے تئیں متشکک اور اقتدار ملنے کی صورت میںاسکے ’عزائم‘ سے بہت حد تک واقف تھے۔ انہوں نے باقی شہریوں کوبھی آگا ہ کرنے کی بھر پور کوشش کی کہ یہ نعرے کھوکھلے ثابت ہوں گے اور بی جے پی اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے مسلمانوں اور اقلیتوں سے للّٰہی بغض نکالنے کے لئے ملک کی فرقہ وارانہ فضا کوزہر آلود کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی لیکن31؍فیصدرائے دہندگان آخرکار جھانسے میں آہی گئے ۔دوسری طرف سیکولر ووٹروں کا انتشار بھی حسب سابق رہا جس کے نتیجے میں بی جے پی کو وہ کامیابی حاصل ہوگئی جس کی خود اس نے بھی توقع نہیں کی تھی۔اس غیر متوقع اور غیر معمولی کامیابی کا نشہ کچھ ایسا چڑھا کہ بی جے پی کے حکومتی اہلکاروں، لیڈروں اور حلیف و ہمنوا جماعتوںو تنظیموں اور انکے رہنمائوں نے بد مست ہوکرحسب توقع مسلمانوں،اقلیتوںاورحق پسندوں کے خلاف ظلم و ستم اور عدم رواداری کا ایک طوفان کھڑا کر دیا۔آج ملک کا باشعور طبقہ جو اس عدم رواداری کے بڑھتے ہوئے رجحان اور آئین کی رو سے حاصل تمام لوگوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنی ثقافت کو قائم رکھنے کی آزادی کی پامالی کے امکانی خطرات سے آگاہ ہے، سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ بڑی تعداد میں قلمکاروں،ادیبوں، مصنفوں، فلمسازوں، فنکاروں، سائنسدانوں،اپوزیشن پارٹیوں ، رہنمائوں،ریاستی حکومتوںاور دیگر حلقوںکی صدائے احتجاج میں اب فنانس اوربزنس کمیونٹی کی آواز بھی شامل ہو گئی ہے باوجود اسکے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی حکومت نے اپنے ڈیڑھ سال کے اقتدار کے دوران عوام الناس کے مفادات کی قیمت پرتجارتی کمیونٹی کو خوش کرنے اور اپنی بزنس حامی امیج قائم کرنے کی کافی کوشش کی ہے۔ نیز یہ بھی کہ ملک بھر میں فرقہ واریت اور دائیں بازو کی جماعتوںکے ذریعہ عدم تحمل کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باوجود بھی یہ برادری حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہے۔
چنانچہ یہ پہلا موقع ہے جب ملک کے بڑے صنعتی گھرانوں میں سے ایک اور بزنس کمیونٹی کی اہم آواز انفارمیشن ٹکنالوجی کی عالمی شہرت یافتہ کمپنی انفوسس کے بانی این آر نارائن مورتی اور ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر رگھو رام رنگا راجن نے بھی ملک میں عدم رواداری کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ملک کی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوںگے۔مسٹر نارائن مورتی نے کہا کہ اقلیتوں کے ذہن میں خوف گھر کر رہا ہے جبکہ کوئی بھی ملک اس وقت تک اقتصادی ترقی نہیں کر سکتا ہے جب تک کہ خوف کا ماحول ختم نہیں ہوتااور اقلیتوں کو
تحفظ کی ضمانت نہیں مل جاتی ہے۔ انہوں نے اقلیتوں میں اعتماد کا احساس پیدا کرنے کامطالبہ کیا۔ اسی طرح آر بی آئے کے گورنر نے کہا کہ رواداری اور باہمی حترام ضروری ہیںتا کہ نئے نئے مواقع کے لئے ماحول بہترین بن سکے۔ نیز کسی بھی مخصوص گروپ کو جسمانی اذیت یا لفظی تحقیر کا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دینا چاہئے۔ انہوں نے حکومت کو متنبہ کیا کہ اگررائے دہی اور بولنے کی آزادی پر پابندی لگائی گئی تو اس سے ملک کو اقتصادی طور پر کافی نقصان ہوگا۔اسی نوعیت کے خیال کا اظہار کرتے ہوئے مشہور موسیقار زوبین مہتا نے کہا کہ اگر مصنفین اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو حکومت کو انہیں جلاوطن نہیں کرنا چاہئے بلکہ اظہار خیال کی مکمل آزادی ہونی چاہئے اور حکومت کو ہمیشہ یہ ذہن نشیں رکھنا چاہئے کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔
ملک کے حالات پرتمام کلیدی شعبوںکی سرکردہ شخصیات کے مذکورہ احساسات اور تشویش کو حکمراں طبقہ نہایت ہی ہلکے انداز میں لیکر یکسر مسترد کرتا رہا ہے اور احتجاج کرنے والوں،عدم رواداری کے خلاف آواز اٹھانے والوں،ایوارڈز واپس کرنے والے ادیبوں، دانشوروں اور فنکاروں کا تمسخر اڑاتا رہا ہے ۔ لیکن اب جبکہ صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی بھی حالیہ دنوں میںہی ایک دو بار نہیں بلکہ بار بار مودی حکومت کو ملک کے تکثیری کردار کی ہر قیمت پرحفاظت کرنے کی تلقین کر رہے ہیں اور یاددہانی کر ارہے ہیں کہ متنوع معاشرہ اور اس کی روح ملک کے دستور میں بھی صاف نظر آتی ہے توظاہر ہے کہ ہر روز ٹیلی ویزن چینلوں پر دلائل کے بغیرنہایت بے شرمی اور ڈھٹائی سے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے والے بی جے پی کے تربیت یافتہ منہ زور ترجمانوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہونا چاہئے لیکن کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے اگر وہ یہ کہیںکہ صدر کا بیان بھی ’’مینوفیکچرڈ پروٹسٹ‘‘ ہے۔ ملک کے آئین کی حفاظت کے تعلق سے صدر جمہوریہ کی تشویش میں روز افزوں اضافے کے محرکات کیا ہیں، ہر محب وطن شہری کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔تاہم اس کے لئے کسی تحقیق یا گہری چھان بین کی ضرورت نہیں بلکہ یہ صاف نظر آرہا ہے کہ اقلیتوں اور حق پرستوں کے خلاف دھماچوکڑی مچانے اور عدم رواداری کی فضا پیدا کرنے میں، مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے میں نیز آئین کی دانستہ یا نا دانستہ خلاف ورزی کرنے میں بی جے پی یا حکومت کے محض چند گمراہ یاخردماغ لوگ ہی نہیںبلکہ خود وزیر اعظم بھی شامل ہیں جنہوں نے ملک کے تمام لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کا حلف لیکر وزارت ِعظمی کی کرسی سنبھالی ہے۔ وزیر اعظم نے گزشتہ ہفتہ بہارکی انتخابی مہم میںپہلے بکسر اور پھر بتیا میں کہا کہ لالو اور نتیش پسماندہ اور دلت طبقات کے ریزرویشن میں سے کچھ فیصد چھین کر بلکہ چرا کرایک مذہبی اقلیت(مسلمان) کو دے دینا چاہتے ہیںتو ایساکہہ کر نہ صرف یہ کہ انہوں نے پسماندہ اور دلت طبقات کو یہ باور کراناچاہا کہ ان کے ریزرویشن کو مسلمانوں سے خطرہ ہے اور اس طر ح ملک کے دو طبقات کے بیچ راست ٹکرائو پیدا کرنے کی دانستہ کوشش کی بلکہ مسلمانوں کے خلاف بغض کا اظہار کر کے یہ بھی واضح کردیا کہ انہوں نے بلا لحاظ مذہب تمام لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کی جو قسم کھائی ہے اس کا پاس نہیں رکھ رہے ہیں ۔
ّّٓٓ(مضمون نگارممبرپارلیمنٹ اور آل انڈیاتعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے صدرہیں)
(بصیرت فیچرس)